Friday 11 March 2016

تفریح کے لئے مباح کا دائرہ کافی ہے

تفریح کے لئے مباح کا دائرہ کافی ہے
عموما لوگ تفریح اور خوش رہنے کے لئے مختلف جائز اور ناجائز راستے اختیار کرتے ہیں۔ تفریح کرنا اور خوش رہنا شرعا کوئی ممنوع عمل نہیں۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نہ صرف خود خوش طبع شخصیت تھے بلکہ اپنے اہل خانہ کو بھی تفریح کے مواقع دیتے رہتے تھے۔
اس لئے تفریح کرنا بلکہ مباح کام ہے۔ لیکن تفریح کا طریقہ بھی جائز یا کم از کم مباح ہونا چاہیئے۔
سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کی مباح کیا ہوتا ہے ؟
جاری ۔۔

Monday 24 November 2014

غیر مقلدین سے اختلاف کا منباء

آج کل غیر مقلدین حضرات (جوخود کو اھل حدیث یا سلفی کہتے ہیں) کے بارے میں بہت سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ میں انفرادی طور پر لوگوں کو سمجھاتا رہتا ہوں۔ اب سوچا کہ اس کے بارے میں تفصیلا مضمون لکھ کر نشر کر دیا جائے۔ تاکہ سب کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے ایک تمہید سمجھ لیں۔
غزوئہ احزاب سے واپسی کے موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے صحابہ سے فرمایا تھا ”لایصلین احدکم العصر، الا فی بنی قریظة“جسکا مفہوم یہ ہے کہ "تم عصر کی نماز نہ پڑھنا مگر بنی قریظہ میں" (بنی قریظہ ایک قبیلہ کی نام ہے)
یہ صحابہ بنی قریظہ سے ابھی دور تھے اور عصر کی نماز قضاء ہونے لگی۔ اب کچھ صحابہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عصر کی نماز بنی قریظہ میں پڑھنا۔ لہذا ہم عصر بنی قریظہ میں جاکر پڑھیں گے چاہے قضا ہو جائے۔ لیکن دیگر صحابہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ اتنا تیز چلو کہ عصر قضا ہونے سے پہلے بنی قریظہ پہنچ جاؤ یہ مطلب نہ تھا کہ اگر عصر قضا ہونے سے پہلے نہ پہنچ سکو تو عصر قضاء کر دینا۔
دونوں فریقین نے حدیث سے جو سمجھا اس پر عمل کیا۔ واپسی پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ سنایا تو آپ نے کسی کو غلط نہیں کہا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ احادیث کے مفہوم کو سمجھنے میں اختلاف ہو جائے تو اس اختلاف کو اجتہادی اختلاف کہا جاتا ہے۔ اور اس اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے نہیں لگائے جا سکتے۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب۔
شریعت کے تمام مسائل کی 3 اقسام ہیں۔

1۔ منصوص غیر متعارض مسائل
2۔ منصوص متعارض مسائل
3۔ غیر منصوص مسائل

منصوص غیر متعارض وہ مسائل ہیں جو قرآن و حدیث میں ذکر ہوں۔ اور ان مسائل کے بارے میں کسی ایک آیت کا دوسری آیت سے یا ایک حدیث کا دوسری حدیث سے، یا حدیث کا کسی آیت سے کوئی ٹکراؤ (اختلاف) نہ ہو۔ مثلا نماز کا فرض ہونا،رمضان کے روزوں کا فرض ہونا وغیرہ
ایسے مسائل قرآن وحدیث سے بغیر کسی اختلاف کے ثابت ہوتے ہیں۔ ان مسائل کے لئے کسی کی تقلید کی ضرورت نہیں۔

منصوص متعارض وہ مسائل ہیں جو قرآن وحدیث میں ذکر تو ہیں لیکن بظاہر کسی آیت کا آیت کے ساتھ یا ایک حدیث کا دوسری حدیث سے، یا حدیث کا کسی آیت سے کوئی ٹکراؤ (اختلاف) ہوتا ہے۔ مثلا نماز میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنی ہے یا نہیں ؟ قرآن میں ذکر ہے کہ "جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کر سنو اور خاموش رہو" جبکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے "سورت فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی" اب باجماعت نماز میں جب امام جہرا قرآن پڑھ رہا ہوتا ہے اس وقت قرآن پر عمل کیا جائے تو حدیث پر عمل نہیں ہو سکتا اور اگر حدیث پر عمل کیا جائے تو قرآن کی مخالفت ہوتی ہے۔
ایسے مسائل کا حل کیا ہے ؟
یہی چیز اھل سنت اور غیر مقلدین کے درمیان وجہ نزاع (اختلاف) ہے۔
اھل سنت والجماعت (حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی) نے ایسے مسائل کے حل کے لئے اصول فقہ مرتب کیا ہے۔ جس میں ایسے مسائل کی تحقیق کے اصول ذکر ہیں۔ ان اصولوں کی بنیاد پر ان مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔ (اس کی تفصیل آگے آئے گی) جبکہ غیر مقلدین حضرات کہتے ہیں بخاری شریف کی حدیث میں جو لکھا ہو اس پر عمل کر لیا جائے (بظاہر یہ حضرات صحیح حدیث کا کہتے ہیں لیکن درحقیقت بخاری کی حدیث کے مقابلے میں کسی اور کتاب کی صحیح حدیث پیش کی جائے تو اسے بھی رد کردیتے ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک معیار صحیح حدیث نہیں بلکہ صرف بخاری ہے)
اس موضوع کو آگے چل کر تفصیلا بیان کرتا ہوں۔ پہلے تیسری قسم کی تعریف پڑھ لیں۔
 سکتا ہے
غیر منصوص مسائل وہ مسائل ہیں جن کا ذکر قرآن وحدیث میں نہیں ہے۔ مثلا پنکھا،موبائل وغیرہ کا استعمال۔
ان مسائل کی تحقیق کے لئے قیاس شرعی کیا جاتا ہے۔

غیر مقلدین سے اختلاف کی اصل وجہ
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ منصوص غیر متعارض مسائل کے حل کا طریقہ کار غیرمقلدین اور اھل سنت کے درمیان اصل وجہ نزاع ہے۔ اھل سنت والجماعت نے ایسے مسائل کے حل کے لئے اصول فقہ مرتب کئے ہیں۔ کیونکہ ایسے مسائل میں اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کی منشاء کے خلاف کوئی فیصلہ نہ کر بیٹھیں اور ہمیں قرآن وحدیث کے سمجھنے میں کوئی غلطی نہ ہو جائے۔ اور اصول فقہ کے بغیرقرآن و حدیث کا صحیح مفہوم سمجھنا ہی ناممکن ہے۔
اس کی سادہ سی مثال یوں سمجھیں کہ امر یعنی حکم ہمیشہ کسی کام کو کرنے کے لئے نہیں دیا جاتا۔ بلکہ اس کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں۔ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کو کہتا ہے کہ سکول جاؤ تو اس کا مطلب ہے باپ سکول جانے کا حکم دے رہا ہے۔ لیکن اگر باپ کسی کام سے منع کرتا ہے اور بیٹا نہیں مانتا تو بعض اوقات ڈانٹنے کے لئے باپ کہہ دیتا ہے "کروجو کرنا ہے" اس وقت بھی باپ نے امر یعنی حکم کا صیغہ استعمال کیا لیکن اس مرتبہ وجوب (ضرور کرنے کے لئے) نہیں بلکہ ڈانٹتے ہوئے منع کرنے کے لئے امر کا صیغہ استعمال کیا۔
اس کی مثال قرآن سے یوں سمجھیں کہ اللہ رب العزت نے فرمایا "اقیموالصلوٰۃ" نماز قائم کرو۔ اس امر کے صیغے سے نماز واجب ہو گئی۔ ایک اور جگہ امر کا صیغہ استعمال کیا "فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر" جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کافر ہوجائے۔ یہاں صیغہ امر کا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو مومن نہیں بننا چاہتا اس کے لئے کافر بننا واجب ہے۔ بلکہ یہاں ڈانٹ کے لئے کہا گیا ہے۔
اسی طرح ایک جگہ قرآن میں امر کا صیغہ صرف کسی کام کو جائز کرنے کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلا جمعہ کے دن جب آذان ہو جائے توفرمایا "وذروالبیع" یعنی خریدوفروخت چھوڑ دو۔ اس حکم سے خریدوفروخت آذان کے بعد ممنوع ہو گئی۔ لیکن جب جمعہ کی نماز ہو جائے تو فرمایا "فإذا قضيت الصلاة فانتشروا في الأرض وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ" پھر زمین میں پھیل جاؤاور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جمعے کی نماز کے بعد زمین میں پھیلنا واجب ہے اور ہر ایک لے لئے اب کاروبار واجب ہو گیا۔ بلکہ نماز سے پہلے کاروبار سے منع کیا گیا تھا اب اس ممانعت کو اٹھا لیا گیا۔
اب آپ سوچیں جب ایک امر کے صیغہ میں اتنی تفصیلات ہیں تو نہی،ماضی،مضارع وغیرہ اور دیگر معاملات میں کتنی تفصیلات ہونگی۔ اور جنہیں یہ تفصیلات معلوم نہیں ہونگی وہ قرآن وحدیث کا مفہوم کیسے سمجھ سکتا ہے؟
غیر مقلدین حضرات بغیر اصول فقہ کے صرف اس بنیاد پر کہ بخاری شریف میں ایسا لکھا ہے، کسی عمل کو ترجیح دیتے ہیں۔
اب ہم اس پر غور کرتے ہیں کہ کیا صحیح احادیث صرف بخاری شریف میں ہیں ؟ کیا احناف اور دیگر ائمہ تمام ضعیف احادیث پر عمل کر رہے ہیں ؟
اسے سمجھنے کے لئے ذرا ہم تاریخی حقائق،صحیح اور ضعیف حدیث اورحدیث کی تدوین پر نظر ڈالتے ہیں۔

صحیح حدیث کسے کہتے ہیں ؟
وہ حدیث جس کے کل راوی عادل اورکامل الضبط ہوں،اسکی سند متصل ہو،معلَّل و شاذ ہونے سے محفوظ ہو
اسے آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ حدیث کے دو حصے ہوتے ہیں، ایک سند دوسرا متن۔ سند اور متن کی ایک عام مثال یہ ہے کہ کوئی شخص مثلا زید کہتا ہے کہ میں نے اپنے بھائی خالد سے سنا، اسے سلیم نے بتایا،سلیم کو شاہد نے کہا کہ "کل لاہور میں ایک میچ ہوا جو پاکستان نے جیت لیا" اب زید کی اس بات میں زید سے شاہد تک سند ہے۔ اور آخری حصہ یعنی "کل لاہور میں ایک میچ ہوا جو پاکستان نے جیت لیا" یہ متن ہے۔ اب یہ متن سچ ہے یا جھوٹ ؟ اس کی تحقیق کے لئے ہم سند کے راویوں (زید،خالد،سلیم،شاہد) کی تحقیق کریں گے۔ اگر یہ سب سچے اور اچھے حافظے والے ہوئے تو یہ متن صحیح ہوگا۔ ورنہ ضعیف۔
اسی طرح مجتہدین اورمحدثین تک جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث پہنچتی تو وہ حدیث نقل کرنے والے راویوں کی تحقیق کرتے۔ اگر راوی سچے،ایماندار اور مضبوط حاٖفظے والے ہوتے تو حدیث کو صحیح قرار دیتے۔ ورنہ اس حدیث کو کوئی اور درجہ مثلا حسن،ضعیف یا موضوع قرار دیدتے۔
اب ہم غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پہلی صدی ہجری (سن80ہجری) میں پیدا ہوگئے تھے۔ اور ان تک حدیث بہت مختصر سند سے پہنچتی تھی۔ کیونکہ اس وقت کچھ صحابہ اور بہت سے تابعین موجود تھے۔ تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک زمانہ کم ہونے کی وجہ سے درمیان میں واسطے بہت کم ہوتے تھے۔ان سندات میں کبھی ایک تابعی اور ایک صحابی ہوتے اور کبھی ایک تبع تابعی، ایک تابعی اور ایک صحابی ہوتے۔بس ان راویوں کی تحقیق کی جاتی۔ وہ سچے،ایماندار اور کامل الضبط ہوتے تو حدیث کو صحیح قرار دیکر اس حدیث سے مسئلہ نکالا جاتا اور اس مسئلے کو ایک کتاب میں لکھ دیا جاتا۔ اس طرح قرآن اور صحیح احادیث سے مسائل نکال کر ایک الگ فن "فقہ" کے نام سے مرتب کردیاگیا۔ اور اس فن کے ماہر کو فقیہ کہا جانے لگا۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث کو لکھ کر محفوظ کرنے کا اہتمام نہیں کیا۔ یہ کمال احتیاط کی وجہ سے تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی احادیث محفوظ یا نقل کرنے سے ڈرتے تھے۔ اس لئے ابوبکر رضی اللہ سے بہت کم روایات منقول ہیں۔
لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ 194 ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کا زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت دور ہوگیا۔ ان تک ایک حدیث 6 یا 8 اور بعض اوقات 10 سے بھی زیادہ راویوں کے ذریعے پہنچتی۔ امام بخاری ان راویوں کی تحقیق کرتے۔ اگر ایک بھی راوی ان کی شرائط پر نہ اترتا تو اس حدیث کو اپنی کتاب میں نہ لکھتے۔
اب اس سے آپ کو سمجھ آگیا ہوگا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف سند کی تحقیق کر کے صحیح احادیث کو جمع کیا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امام ابوحنیفہ نے صحیح احادیث پر عمل نہیں کیا۔ اور یہ مطلب لینا بھی غلط ہوگا کہ جو حدیث امام بخاری کی کتاب صحیح بخاری میں نہ ہو وہ صحیح نہیں ہوگی۔
بلکہ حقیقت یہ ہے امام بخاری کی کتاب کی تمام احادیث صحیح ہیں لیکن تمام صحیح احادیث صرف بخاری شریف میں نہیں ہیں۔

منصوص متعارض مسائل میں احناف کا طریقہ کار
غیر مقلدین کا طریقہ کار تو آپ کو معلوم ہو گیا کہ وہ صرف بخاری شریف میں کسی حدیث کے ذکر ہونے کو سب سے بڑی دلیل سمجھتے ہیں اور اس کے علاوہ تمام احادیث اور دلائل کو جھٹلا دیتے ہیں۔ لیکن احناف کے اصول فقہ میں بہت باریکی سے ان مسائل کو دیکھا جاتا ہے۔
احناف ایسے اختلافی مسائل جن میں بظاہر دلائل میں تعارض ہو، کے حل کے لئے سب سے پہلے تمام دلائل کو سامنے رکھتے ہیں۔ قرآنی آیات، احادیث (صحیح احادیث چاہے کسی کتاب میں ہو، حسن،ضعیف، مرسل وغیرہ) صحابہ وتابعین کے عمل وغیرہ سب کو سامنے رکھتے ہیں۔ اور پھر ان کو سامنے رکھ کر وجوہ ترجیح تلاش کرتے ہیں۔ یعنی کس قول کو اختیار کیا جائے اور کیوں ؟
وجوہ ترجیح کا مطلب ہے کہ کس قول کو اختیار کرنا راجح ہے؟ کونسے قول کے دلائل مضبوط ہیں؟
اس کے لئے صرف حدیث کی سند صحیح ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ تعامل کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔

تعامل کیا ہے ؟
تعامل کا مطلب ہے کسی کام کو خود عملی طور پر کرنا۔ اگر قول اور عمل میں ٹکراؤ (تعارض) آجائے تو عمل کو ترجیح ہوتی ہے۔ مثلا ایک شخص زید کے بارے میں آپ کو یہ بات پہنچی کہ وہ مچھلی نہیں کھاتا۔ اور پھر آپ نے زید کو خود مچھلی کھاتے ہوئے دیکھ لیا تو اب آپ ان دونوں باتوں میں سے کس کو صحیح سمجھیں گے کہ زید مچھلی کھاتا ہے یا نہیں ؟
اگر قول کو دیکھا جائے تو زید مچھلی نہیں کھاتا اور اگر تعامل کو دیکھا جائے تو زید مچھلی کھاتا ہے۔ یقینا اس صورت میں تعامل کوزیادہ مضبوط دلیل سمجھا جائے گا۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں کچھ صحابہ زندہ تھے اور وہ زمانہ تابعین کا تھا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحابہ اور تابعین کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔ تابعین سے احادیث سنیں۔ تابعین سے دین کا علم حاصل کیا۔ تو کیا انہوں نے صحابہ اور تابعین کا تعامل دیکھا یا نہیں ؟ یقینا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحابہ اور تابعین کے تعامل کی بنیاد پر ہر اختلافی مسئلے میں راجح عمل کو چنا۔

مشاہدہ
اگر ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ یا تابعین کے زمانوں میں سے کسی کے بھی زمانے میں وقت گزارا ہو تو اس نے ان حضرات کے اعمال کا براہ راست مشاہدہ کرلیا۔ اور اس کے لئے یہ مسائل اختلافی مسائل ہی نہیں رہے بلکہ ان تمام اعمال میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ یا تابعین کے عمل کا مشاہدہ کرچکا ہے۔ اس لئے اسے تو سند کی صحت اور ضعف کی تحقیق کی ضرورت بھی نہ رہی۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ 80 ہجری میں پیدا ہوئے۔ اور آخری صحابی 95 ہجری میں فوت ہوئے۔ تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تو صحابہ اور تابعین کے زمانے میں رہے۔ اس لئے انہوں نے تو صحابہ اور تابعین کے اعمال کا مشاہدہ کرلیا۔
لیکن امام بخاری،امام شافعی اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیھم تو بہت بعد میں آئے۔ اس لئے ان کے پاس احادیث کی سندات پر اعتماد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

فعل حسی اور فعل شرعی

مسلمان جو بھی کام کرتے ہیں ان کی دو اقسام ہیں۔

فعل شرعی
فعل حسی

فعل شرعی وہ کام ہیں جو اسلام نے متعارف کرائے ہیں یا جنہیں کرنے پر ثواب ہوتا ہے۔ مثلا نماز روزہ وغیرہ

فعل حسی وہ کام ہیں جو لوگ اپنی ضرورت کی خاطر کرتے ہیں۔ مثلا کھانا،پینا،سونا وغیرہ

فعل شرعی میں اصل حرمت ہے۔ یعنی کوئی بھی کام تب تک فعل شرعی نہیں مانا جائیگا جب تک اس کے ثبوت کی کوئی دلیل شریعت سے پیش نہ کر دی جائے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص ظہر کے فرض 4 کی جگہ 6 رکعت پڑھتا ہے تو یہ ناجائز ہوگا۔ کیونکہ ظہر کی نماز میں 6 رکعت فرض کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی شخص درخت سے الٹا لٹک جائے اور اسے عبادت کا نام دے تو یہ جائز نہ ہوگا۔ کیونکہ شریعت کے دلائل سے ایسی کوئی عبادت مشروع نہیں۔
اسی طرح اگر کوئی مسلمان دین سمجھ کرایسا کوئی بھی کام کرے جس کے ثبوت کی شریعت میں کوئی دلیل نہ ہوتو وہ ناجائز ہوگا۔ بعض لوگ دین میں نیا کام ایجاد کر کے کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے کسی حدیث میں منع تو نہیں کیا گیا اس لئے ہم کرتے ہیں۔ ان کی یہ دلیل غلط ہے۔ کیونکہ اگر اس طرح ہر اس کام کوجس کی قرآن و حدیث میں ممانعت نہ ہو شرعا باعث ثواب قرار دیا جائے تو ہر مسلمان اپنی اپنی من گھڑت عبات بنا لے گا۔

خلاصہ یہ کہ کوئی بھی کام جسے ثواب کی نیت سے دین کا حصہ سمجھ کر کیا جائے اسے تب تک ناجائز سمجھا جائے گا جب تک کسی شرعی دلیل سے اس کا ثبوت نہ مل جائے۔

فعل حسی میں اصل اباحت ہے۔ یعنی ہر وہ کام جو انسان اپنی کسی ضرورت کی خاطر کرے (دین کا حصہ سمجھ کر نہ کرے) وہ تب تک جائز ہو گا جب تک کسی دلیل شرعی سے اس کے حرام ہونے کا ثبوت نہ مل جائے۔ چنانچہ کوئی شخص جیب میں پین رکھے تو اس کے اس عمل کو جائز یا مباح قرار دینے کے لئے کسی شرعی دلیل سے ثبوت نہیں مانگا جائے گا۔ بلکہ وہ تب تک جائز سمجھا جائے گا جب تک شریعت کی دلیل سے اس کا حرام ہونا ثابت نہ ہو جائے۔

دلائل شرعیہ

شریعت اسلام کی کسوٹی (دلائل) چار ہیں۔ یعنی کسی بھی عمل کا حکم شرعی معلوم کرنے کے چار ذرائع ہیں۔

  1. قرآن
  2. حدیث
  3. اجماع
  4. قیاس شرعی

جب ہمیں کسی بھی امر کا حکم معلوم کرنا ہو (یعنی یہ پتہ لگانا ہو کہ یہ کام جائز ہے یا ناجائز، فرض ہے یا واجب، حرام ہے یا مکروہ وغیرہ) تو ہم سب سے پہلے قرآن کریم میں تلاش کرینگے۔ اگر قرآن میں اس کا حکم مل گیا تو اس پر عمل کیا جائیگا۔
اگر ہمیں اس کا حکم قرآن کریم میں نہ ملا تو احادیث میں تلاش کرینگے۔ اگر حدیث میں مل گیا تو اس کے مطابق حکم لگائیں گے۔
اگر ہمیں حدیث میں نہیں ملا تو صحابہ اور تابعین کی احادیث اور زندگی میں تلاش کرینگے۔ اگر مل گیا تو اس کے مطابق عمل کرینگے۔
اگر ان کے اقوال اور زندگی میں بھی نہ ملا تو قرآن و حدیث کے اصولوں کے مطابق قیاس کر کے حکم نکالا جائیگا۔

افعال عباد کی اقسام

کسی بھی انسانی فعل کی شرعی حیثیت معلوم کرنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ انسان جو کام کرتے ہیں انہیں شرعی اعتبار سے کتنی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ؟ یعنی ہم کھاتے پیتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں، کاروبار اور شادی بیاہ کرتے ہیں الغرض جو بھی کام ہم کرتے ہیں انہیں افعال عباد کہا جاتا ہے۔ ان افعال عباد میں سے کچھ جائز ہیں کچھ ناجائز۔ کچھ فرض ہیں کچھ سنت۔ اس طرح ان کی شرعی اعتبار سے آٹھ اقسام بنتی ہیں جوکہ درج ذیل ہیں۔
افعال عباد کی اقسام

  1. فرض
  2. واجب
  3. مسنون
  4. مستحب یا نفل
  5. مباح
  6. مکروہ تنزیہی
  7. مکروہ تحریمی
  8. حرام

اب ان کی تفصیل
فرض : وہ حکم شرعی ہوتا جس کاضروری بجا لانا دلیل قطعی (قرآنی حکم اور حدیث متواتر) سے ثابت ہو، یعنی ایسی دلیل جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ بلا عذر اس کا تارک فاسق اورعذاب کا مستحق ہے اور فرضیت کااعتقاد رکھنا ضروری ہے، چاہے اس پر عمل نہ کرے ، یعنی انسان یہ عقیدہ رکھے کہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے، اگر کوئی انسان ایسے فرض کا عقیدہ نہ رکھے مثلا پانچ وقت کی نماز کو فرض اور ضروری نہ سمجھے تو خارج از اسلام سمجھا جائے گا ، چاہے دیگر کچھ اسلامی رسومات کا پابند ہو۔
فرض کی دوقسمیں ہیں
فرض عین
فرض کفایہ
( ا١لف ) فرض عین : وہ ہےجس کی ادائگی سب کےذمہ ضروری ہو جیسے : نماز پنجگانہ وغیرہ
( ب ) فرض کفایہ: وہ ہےجس کی ادائگی تمام کے ذمہ نہیں ، ایک دوکے ادا کرنے سے سب بری الذمہ ہوجاتےہیں اورکوئی ادا نہ کرے توسب گنہگار ہوں گے؛ جیساکہ نماز جنازہ وغیرہ ۔
( در مختار مع الشامی ج ١ )

واجب : وہ ہےجودلیل ظنی سےثابت ہو اس کا تارک عذاب کا مستحق ہے، اس کے وجوب کا منکرفاسق ہےکافر نہیں ۔ واجب فرض کے قریب ترین ہوتا ہے۔ مثلا نماز کے درمیانی قاعدہ میں بیٹھنا۔

سنت : وہ کام جس کو نبی کریم نے اور صحابہ کرام نےکیا ہو اور اس کی تاکید کی ہو۔اس کی دوقسمیں ہیں
(1) سنت مؤکدہ (2) سنت غیرمؤکدہ ۔
سنت مؤکدہ : وہ ہےجس کو حضور اور صحابہ کرام نے ہمیشہ کیا ہو یا کرنےکی تاکید کی ہو اور بلا عذر کبھی ترک نہ کیا ہو، اس کا حکم بھی عملا واجب کی طرح ہے، یعنی بلا عذر اس کا تارک گنہگار اور ترک کا عادی سخت گنہگار اور فاسق ہے اور شفاعت نبی سے محروم رہےگا۔ ( درمختار مع الشامی ج١ ص ٥٩٢ )
سنت غیر مؤکدہ : وہ ہےجس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ کرام نے اکثر مرتبہ کیا ہو مگرکبھی کبھار بلا عذر ترک کیا ہو، اس کےکرنے میں بڑا ثواب ہے اور ترک کرنے میں گناہ نہیں ؛ اس کو سنت زوائد اور سنت عادیہ بھی کہتےہیں ۔ ( شامی ج ١ص ٥٩ )

مستحب : وہ کام ہےجس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اورصحابہ کرام نےکبھی کیا ہو اور اس کو سلف صالحین نے پسند کیا ہو ( شامی ج ١ ص ٥١١ ) اس کےکرنے میں ثواب ہے لیکن نہ کرنے میں گناہ نہیں اس کو نفل، مندوب اور تطوع بھی کہتے ہیں ۔ والنفل و منہ المندوب یثاب فاعلہ ولا یسیئی تارکہ ۔ ( شامی ج ١ ص ٥٩ )

مباح: وہ ہےجس کےکرنے میں ثواب نہیں اور ترک کرنے میں گناہ اور عذاب بھی نہیں۔ (شامی ج ٥ ص ٤٩٢ )
بعض مباح اعمال اچھی نیت کی وجہ سے مستحب بن جاتے ہیں۔ اور بری نیت کی وجہ سے مکروہ یا حرام ہو جاتے ہیں۔ مثلا کسی نے گھڑی خریدی محض وقت دیکھنے کے لئے تو یہ ایک مباح کام ہے۔ لیکن یہ شخص اگر یہ نیت کر لے کہ اس گھڑی سے نماز اور دیگر نیک کاموں کے اوقات کی پابندی کرونگا تو یہ گھڑی کا استعمال مستحب عمل بن جائے گا۔ اور اگر خدانخواستہ کسی برے کام کی نیت سے خریدی تو اس کا استعمال مکروہ یا حرام ہو سکتا ہے۔

مکروہ تنزیہی : وہ ہےجس کےترک (چھوڑنے) میں ثواب اور کرنے میں عذاب نہیں ؛ مگر ایک قسم کی قباحت (برائی) ہے ۔

مکروہ تحریمی : وہ ہےجس کی ممانعت دلیل ظنی سے ثابت ہو بلا عذر اس کا مرتکب گنہگار اور عذاب کا مستحق ہے، اور اس کامنکر فاسق ہے ۔ ( شامی ج٥ ص)

حرام : وہ ہےجس کی ممانعت دلیل قطعی سے ثابت ہو اس کا منکرکافر ہے اور بلا عذر اس کا مرتکب فاسق اور مستحق عذاب ہے ۔